The Sweetness of Soil

 



 

سنڌ جي هڪ ننڍڙي ڳوٺ "نورپور" ۾، هڪ غريب هاري، الله بخش، پنهنجي زال ۽ پوٽي ماجد سان گڏ رهندو هو.گاؤں کی زندگی سادہ، مگر محنت طلب تھی۔ اللہ بخش اپنی ساری عمر کھیتوں میں گزار چکا تھا۔ اب وہ بوڑھا ہو چکا تھا، لیکن اس کا دل زمین سے جڑا ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتا، "زمین ماں ہے، جو اسے سچے دل سے چاہے گا، وہ کبھی بھوکا نہیں سوئے گا۔"

 

 

 

ماجد شہر کے اسکول میں پڑھتا تھا، مگر گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ دادا کے پاس آتا۔ وہ گاؤں کی فضا، درختوں کی چھاؤں، کھیتوں کی خوشبو اور نہر کے کنارے بیٹھ کر آم کھانے کا شوقین تھا۔ مگر اس سال، وہ بدلا ہوا سا آیا۔ اب اسے گاؤں کے طور طریقے دقیانوسی لگتے تھے، گاؤں کے لوگ جاہل، اور کھیتوں میں کام کرنا وقت کا ضیاع۔

 

  

ایک دن دادا نے اسے کھیت میں ساتھ لے جانے کی ضد کی۔ ماجد نے نخرے کرتے ہوئے کہا، "دادا! اب یہ سب پرانی باتیں ہیں، شہر میں سب کچھ مشینوں سے ہوتا ہے، آپ کا یہ بیل گاڑی، ہل اور دھوپ میں کام کرنا فضول ہے۔"

 

اللہ بخش مسکرایا اور خاموشی سے بیل گاڑی میں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ ایک کنویں کے پاس رکے۔ دادا نے ایک مٹی کا پیالہ نکالا اور پانی بھر کر ماجد کو دیا۔ ماجد نے پانی پیا تو حیرت سے بولا، "دادا! یہ پانی تو بہت میٹھا ہے!" دادا نے کہا، "بیٹا، یہی مٹی، یہی پسینہ اور یہی سادگی اصل میٹھاس ہے۔ شہر کی چمک دمک وقتی ہے، مگر گاؤں کی محبت ہمیشہ رہتی ہے۔"

 


 

اگلے دن دادا بیمار ہو گیا۔ گاؤں کے سب لوگ خیریت پوچھنے آئے۔ کسی نے دودھ لایا، کسی نے شہد، کسی نے دوا۔ ماجد یہ سب دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ سوچنے لگا کہ شہر میں تو پڑوسی ایک دوسرے کا نام بھی نہیں جانتے، اور یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کا خیر خواہ ہے۔

 

 

 چند دن بعد، دادا کے کہنے پر ماجد نے خود کھیت میں ہل چلانے کی کوشش کی۔ وہ تھک گیا، مگر دادا کی آنکھوں میں جو فخر تھا، وہ ماجد کے دل کو چھو گیا۔ اس دن ماجد نے سوچا، "دادا ٹھیک کہتے تھے، زمین سے رشتہ کمزور نہیں ہوتا، جو اس سے جڑ جائے، اسے زندگی کی قدر آتی ہے۔"

 

  

چھٹیاں ختم ہوئیں، ماجد شہر واپس چلا گیا، مگر اب کی بار وہ کچھ بدل چکا تھا۔ اس کے دل میں گاؤں کے لیے محبت جاگ چکی تھی۔ اس نے تہیہ کیا کہ وہ پڑھ لکھ کر اپنے گاؤں کے لیے کچھ کرے گا — اسکول بنائے گا، صحت کا مرکز بنائے گا، اور دادا کے خوابوں کا نورپور حقیقت بنائے گا۔

Post a Comment

0 Comments